*اوریا مقبول جان ایک بہترین داعشی رہنما
✍️نذر حافی
اوریا مقبول جان کو کون نہیں جانتا، عام لوگ ان کے ٹی وی پروگرامز دیکھتے یا کالمز وغیرہ پڑھتے ہی رہتے ہیں، وہ ایک کامیاب ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور معروف صحافی ہیں اور خاندانی و نظریاتی پسِ منظر کے لحاظ سے تحریکِ خلافت والوں کے جیالے ہیں۔ تحریکِ خلافت کے ناتے گاندھی جی سے ان کا گہرا فکری تعلق ہے۔
اب یہاں پر ایک اور کالم نگار محی الدین بن احمد دین کا ذکر بھی ہو جائے۔ وہ بھی گاندھی جی کے سکول آف تھاٹ سے وابستہ ہیں۔ وہ بظاہر کلین شیو لیکن درس نظامی کے فاضل ہیں۔ ان کے بقول ان کی درسِ نظامی کی سند پر المولوی محی الدین لکھا ہوا ہے۔ان کے بھی گزشتہ کالمز کو ملاکر دیکھ لیجئے ، آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ وہ بھی کس طرح قدم قدم پر گاندھی جی کے مشن یعنی ملتِ پاکستان کو تقسیم اور نظریاتی طور پر کمزور کرنے میں مسلسل مصروف ہیں۔
آپ ان دونوں حضرات کےمختلف کالمز اور پروگرامز کو ایک دوسرے سے ملا کر ان کا جائزہ لیجئے۔ پہلے مسٹر اوریا مقبول جان کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کا سارا ہم و غم پاکستان کے مسلمانوں کو شیعہ و سنی، میں تقسیم کر کے ان دونوں کو ایک قوم کے بجائے الگ الگ دومتضاد اور متحارب قومیں ثابت کرنا ہے۔اس مقصد کیلئے وہ آیات و روایات، اپنے خوابوں، پیشین گوئیوں ، اشعار ، عربی و عجمی کی اصطلاحات ، سید و غیر سید کے ڈی این اے، غزوہ ہند ، بلوچی قبائل۔۔۔۔پرمسلسل لکھتے یا بولتے رہتےہیں۔ حتی کہ ہزارہ کے قتلِ عام کو بھی سنی و شیعہ کی جنگ قرار دے کر اسے بڑے دھیمےانداز میں ایک معمولی سی بات قراردیتے ہیں۔ وہ اپنی بیوروکریسی کےدور کو بطورِ حوالہ استعمال کر کے حکومتی اداروں میں موجود بیوروکریٹس کو بھی اس جنگ و جدال کا حصہ بننے پر اکساتے ہیں۔ وہ اس جنگ کو بڑھکانے کیلئے اپنے آنسووں کے تیل کا چھڑکاواور اپنے تجربات کا ایندھن بھی فراہم کرتے ہیں۔
آپ ٹھنڈے دل سے ان کے پروگرامز اور کالمز کو اول سے آخر تک کھنگال کر دیکھئے،آپ حیران رہ جائیں گےکہ پاکستان میں شدت پسندوں کو متحد کرنے ،دہشتگردوں کیلئے لوگوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے ، اور طالبان، القاعدہ و داعش میں بھرتی کیلئے پاکستانیوں کو ابھارنےمیں ان کا کردار انتہائی اساسی اور کلیدی نوعیت کا ہے۔ وہ بڑی مہارت سے ایران، انقلابِ ایران، بشارلاسد اور حزب اللہ وغیرہ کا ذکر کر کے پاکستان کے اہلِ سُنت کو ہلکے پھلکے انداز میں یہ احساس دلاتے ہیں کہ اُ ن کی بقا کا سب سے بڑا راز شیعہ کُشی اور شیعہ دشمنی میں پوشیدہ ہے۔
صاحبانِ فکر و نظر کو اس میں کوئی تردید نہیں کہ وہ پاکستان میں شدت پسندی خصوصاً طالبان، سپاہِ صحابہ ، لشکر جھنگوی، القاعدہ اور داعش کے حقیقی بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شیعہ و سنی کے علاوہ بلوچستان کے قبائل کے بارے میں غلط فہمیاں اور منفی جذبات ابھارنے پر ان کے متعدد پروگرام شاہد ہیں۔ وہ 18 جنوری 2016 کو 31 سال کی سروس کر کے ایک بیوروکریٹ کےطورپر ریٹائر ہو گئے لیکن اپنے پیشوا و رول ماڈل آنجہانی مہاتما گاندھی کے نظریات سے دستبردار نہیں ہوئے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ وہ اپنی بیوروکریسی کے تجربے کو بھی پاکستان میں نفرت و تعصبات کےفروغ کیلئے استعمال کرنے میں مشغول ہیں۔
اب آئیے محی الدین بن احمد دین جیسے کالم نگار کاطریقہ واردات بھی ملاحظہ فرمائیے۔آپ ان کا تازہ ترین کالم ہی اٹھا کر دیکھ لیجئے، کالم کا عنوان ہے اسرائیل اور مولانا۔۔۔ ان کا یہ کالم ۲۵ جنوری ۲۰۲۱ کو روزنامہ ۹۲ نیوز میں چھپا ہے۔ اس کالم میں انہوں نے واضح اعتراف کیا ہے کہ چیزیں جیسی ہوتی ہیں ویسی نظر نہیں آتیں، ان کا یہ دعوی اُن کی اپنی حد تک بالکل درست ہے چونکہ وہ خود بھی سند یافتہ المولوی ہیں لیکن بظاہر کلین شیو دکھائی دیتے ہیں، یہ کالم بھی انہوں نے بظاہر مولانا فضل الرحمان صاحب کی مخالفت میں لکھاہےلیکن درحقیقت انہوں نے مولانا کا نام استعمال کر کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تبلیغ کی ہے۔ انہوں نے واضح لکھا ہے کہ اسرائیل کی مخالفت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ﴿ہندوستان﴾عرب امارات اور سعودی عرب کی طرح اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ ان کے کالم کے مطابق ان کی اس طرح کی کاوشوں کو مغربی و یورپی سفارتخانوں میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اپنے تعارف میں انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہودیوں اور اسرائیل دوست لابی نے دو مرتبہ اسلام آباد میں ان سے ملاقات کیلئے رابطہ بھی کیا ہے۔ ہمارےنزدیک جسمانی رابطے اور ملاقات سے زیادہ فکری اور نظریاتی رابطہ اہمیت رکھتا ہے۔ یوں فکری طور پر محی الدین صاحب ان لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ اسرائیل نظریاتی طور پر ہندوستان اور مہاتما گاندھی کیلئے تو قابلِ قبول ہے لیکن پاکستان اورقائداعظم محمد علی جناح کیلئے ناقابلِ قبول ہے۔
مذکورہ بالا کالم نگارپاکستان کی سلامتی کےخلاف نرم جنگ لڑ رہے ہیں، اس جنگ میں نبردازما سورماوں کو کسی ایک کالم، پروگرام یا کلپ سے نہیں پہچانا جا سکتا، آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اعضائے بدن کو الگ الگ دیکھنے اور انہیں ملاکر دیکھنے میں بہت فرق ہے۔ آئیے آج اوریا مقبول جان اور مولوی محی الدین کی اصل مشکل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ مشکل مسٹر گاندھی اور تحریک خلافت سے شروع ہوتی ہے۔ یہ وہی مشکل ہے جو مسٹرگاندھی اور تحریک خلافت والوں کو قائداعظم سے تھی۔ مسٹر گاندھی کے نظریاتی سپوتوں یعنی تحریک خلافت والوں نے کبھی ایک لمحے کیلئے بھی پاکستان اور قائداعظم کو تسلیم یا قبول نہیں کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اُن میں سے جو پاکستان میں رہ گئے یا ہجرت کر کے پاکستان آگئے وہ کسی بھی لمحے اپنے مشن سے دستبردار بھی نہیں ہوئے۔ انہوں نے پاکستان میں مسجدِ ضرار کی طرز کی حکمتِ عملی اپنائی۔ بظاہر پاکستان، قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بڑے داعی، مبلغ اور محب وطن بن گئے لیکن اندرونِ خانہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کیلئے آج بھی سرگرم ہیں۔
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ تحریکِ خلافت ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے عاشقوں کی تحریک تھی۔ پہلی جنگِ عظیم میں ترکی کا خلیفہ اور برطانیہ آپس میں لڑ رہے تھے۔ اس لڑائی کےدوران ترکی کے خلیفے کے پیروکار برطانیہ کے اتحادی بنے ہوئے تھے۔ اس ڈبل گیم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔یعنی ترک خلیفہ برطانیہ سے جنگ کر رہا تھا اور اس کے پیروکار برطانیہ کے اتحادی تھے۔
اس کھیل کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جو خلافت عثمانیہ کے جانثار تھے، یہ برطانیہ کے ساتھ ساتھ کانگرس اور مسٹر گاندھی کے بھی اتحادی تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مسلم لیگ کو کسی بھی اعتبار سے قابل اعتنا اور قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے تھے۔ مہاتما گاندھی ہی ان کے رول ماڈل تھے۔ یہ ایک طرف ترکی کی خلافت کو توحیدی و اسلامی خلافت کہتے تھے، نیز ترکی کا خلیفہ برطانیہ کو دارالکفر و شرک قرار دے کر برطانیہ کے خلاف جہاد کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف اس کے پیروکار اسی توحیدی و اسلامی خلافت کی تبلیغ اور دوام کیلئے برطانیہ و ہندووں کے پکے اتحادی بنے ہوئےتھے۔ یعنی یہ وہ ذہنیت اور سوچ ہے جو اپنے مقاصد اور مفادات کیلئے کسی عقیدے یا اصول کی پابند نہیں ہے۔انہوں نے مسلم لیگ کے دوقومی نظریے کو رد کیا اور مسٹر گاندھی کے ہندی قومیت کے نعرے پرلبیک کہا۔
تحریکِ خلافت کے بعد بھی انہوں نے جو تحریکِ عدمِ موالات، ہندوستان چھوڑ دو تحریک اور پاکستان و قائداعظم سے نفرت کرنے کی جتنی بھی مہم چلائی ، ان سب مہمات کا فکری منبع مہاتما گاندھی کی ہی ذات تھی۔ وہی ان کے کرتا دھرتا اور مائی باپ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ خلافت کے بعد بھی ۱۹۲۹ میں مجلس ِ احرار بھی مسلم لیگ سے اپنا راستہ جدا رکھنے کیلئے قائم کی گئی ۔
بعد ازاں جب پاکستان بن گیا تو پاکستان میں کانگرس والوں کا مورچہ ہی ختم ہوگیا۔ اب گاندھی جی کے نظریاتی سپوتوں نے پینترا بدلا۔ انہوں نےغیر محسوس انداز میں اس شکست کا انتقام لینے کی ٹھانی، وہ پاکستان میں مذہبی و لسانی و علاقائی ۔۔۔شدت پسندی کے فروغ کیلئے سرگرم ہوگئے۔ ان کے دینی مدارس تھے یا سیاستدان و بیوروکریٹ، سب نے اسی ایک ایجنڈے پر کام کیا۔ان کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ مسلمان ایک قوم نہیں ہیں اور دوقومی نظریہ غلط ہے۔
اس وقت پاکستانی صحافت میں گاندھی جی کے بے شمار نظریاتی سپوت اپنا کام دکھا رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سلامتی کے ضامن اداروں کو ان افراد پر نگاہ رکھنی چاہیے اور انہیں بانی پاکستان کے نظریات کے خلاف ، مسٹر گاندھی کے افکار و نظریات اور شدت پسندی کی ترویج کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ تحریکِ خلافت اور مجلسِ احرار کو آزادانہ طورپر سمجھنے کیلئے تحقیق کادروازہ سب کیلئے کھلا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہی لوگ نقاب بدل کر ملکی اداروں میں گھس گئے اور ہمارا تدریسی نصاب آج تک یہی لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ چنانچہ ہماری درسی کتابوں میں مسلم لیگ،قائداعظم اور قیامِ پاکستان کے دشمنوں ، شدت پسندوں اور کانگرس و گاندھی نواز شخصیات کو ہی تحریکِ پاکستان کا ہیرو اور بانی لکھا جا رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ذرائع ابلاغ اورسکولوں و کالجز میں تدریسی نصاب کے مواد پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ ہمیں اپنی نئی نسل کے سامنے مسخ شدہ تاریخ کے بجائے پاکستان کی شفاف تاریخ رکھنی چاہیے۔ بانی پاکستان کے نظریات کا تحفظ ہر حال میں ضروری ہے خواہ وہ ذرائع ابلاغ ہوں یا نصابِ تعلیم ہو۔
Saturday, 27 February 2021