( سلطان قطب الدین ایبک )۔
برصغیر پاک و ہند میں خاندان غلاماں کی بنیاد رکھنے والے سلطان قطب الدین ایبک کا مقبرہ لاہور انارکلی ایبک روڈ پر واقع ہے۔قطب الدین ایبک کے نام سے تو بہت سے لوگ واقف ہیں مگر شاید قطب الدین ایبک کے مقبرے سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ حالانکہ یہ مقبرہ لاہور کے سب سے مشہور بازار انارکلی کے پاس واقع ہے
قطب الدین ایبک سلطان شہاب الدین غوری کا ایک ترک غلام تھا۔
سلطان شہاب الدین غوری کا کوئی بیٹا نہیں تھا لہذا اسے غلام رکھنے اور پالنے کا بہت شوق تھا ۔اس نے اپنے غلاموں کی بیٹوں کی طرح تربیت کی تھی ۔ان کی قابلیت پر اعتماد تھا۔
سلطان قطب الدین ایبک نے خاندان غلاماں کی بنیاد رکھی ۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے مشہور حکمران قطب الدین ایبک،ارام شاہ ،شمس الدین التمش،رکن الدین ،رضیہ بیگ ،غیاث الدین بلبن اور کئ نامور بادشاہ یکے بعد دیگرے تحت نشین ہوے انہوں نے کل چھیاسی برس(1206-1290)تک حکومت کی۔اس خاندان کو خاندان غلاماں کہنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے ۔کہ اس خاندان میں جتنے بادشاہ ہوئے وہ غلام تھے یا غلاموں کی نسل سے تھے۔
قطب الدین ایبک ترکی النسل تھا ۔ ابیک ترکی زبان کا لفظ ہے جس سے جسمانی کمزوری مراد ہے کہا جاتا ہے ۔کیونکہ قطب الدین ایبک کی شکل و صورت اور جسم بھدا تھا۔ اس لیے اسے ایبک کہا جاتا تھا ۔ اکثر تاریخ دان ایبک کا لفظی مطلب چھنگلی (چھوٹی انگلی)بتاتے ہیں۔اسے کمزور چھنگلی والا شخص مراد لیتے ہیں۔ ایبک کے ہاتھ کی ایک چھنگلی مفلوج یا شل تھی ہوسکتا ہے اس وجہ سے اسے ایبک کہا جاتا ہو۔ایبک شکل و صورت کا اتنا خوبصورت نہ تھا قطب الدین ایبک ا بھی بچہ ہی تھا ۔کہ اسے کسی نے پکڑ کر نیشاپور (خراسان) ایک مشہور تاجر قاضی فخرالدین کے ہاتھ بیچ دیا ۔ جو امام اعظم کے خاندان سے تھے ۔ قاضی فخر الدین نے اسے اپنے بیٹوں کے ساتھ تعلیم دلائی اور اس کی تربیت کا پورا پورا خیال رکھا ۔قاضی فخر الدین نے قطب الدین ایبک کو قرآن پاک کے ساتھ ساتھ تیر اندازی اور شاہسواری بھی سکھائی قازی صاحب کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں نے قطب الدین کو ایک اور سوداگر کے پاس بھیچ دیا ۔جس نے اسے غزنی میں لاکر محمد غوری کے دربار میں پیش کیا سلطان نے اسے چوست اور ذہین پا کر خرید لیا اور اسے شاہی اصطبل خانے کا دروغا مقرر کر دیا۔قطب الدین ایبک انتہائی شجاعت اور بہادر انسان تھا قطب الدین ایبک نے اپنی وفاداری ، ہمت اور بہادری سے محمد غوری کو بہت متاثر کیا یہاں تک کہ دہلی اور اجمیر فتح ہوئے تو محمد غوری نے اسے اپنے تمام دیگر افسروں پر فضیلت اور ترجیح دیتے ہوئے ہندوستان کے مفتوحہ علاقوں کا نائب السلطنت (گورنر)بنا دیا۔محمد غوری کی وفات پر اس کی سلطنت کا برقرار رہنا نہایت ہی مشکل نظر آتا تھا ۔کیونکہ مفتوحہ علاقوں کو ابھی پوری طرح استحکام حاصل نہیں ہوا تھا۔ کہ محمد غوری کی وسط ایشیائی شکست اور اس کی موت کے حادثات سے ہندوؤں کو سر ابھرنے کا موقع مل گیا جس کے باعث صوبائی گورنروں کی خودسری کے علاوہ کالنجر،بدایوں ،فرخ آباد،لکھنوتی وغیرہ میں ہندوؤں کی طرف سے بغاوت کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے تھے انہی حالات میں سلطنت کو تباہی سے بچانے کے لئے اہل لاہور کی دعوت پر دہلی سے لاہور آیا اور ہندوستان کے خود مختار بادشاہ کی حیثیت اختیار کر کے وہاں پر رسم تاجپوشی ادا کی کی اور مملکت پاک و ہند کی زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں محمد غوری کے جانشین غیاث الدین محمود نے نے بھی اس کی خودمختاری کو تسلیم کرلیا۔قطب الدین ایبک کی تحت نشینی کے وقت سلطان شہاب الدین غوری کے چند ایک اور غلام بھی موجود تھے جن میں تاج الدین یلدوز افغانستان سندھ کے درمیانی علاقے کا حاکم تھا اور ناصر الدین قباچہ سندھ پر حکومت کرتا تھا سلطان کے شہید ہوتے ہی انہوں نے بھی اپنی اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا تاج الدین یلدوز نے غزنی پر حکومت کرنے کی سند پاکر دہلی کی حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے صوبہ پنجاب کو غزنی کی سلطنت میں شامل کرنا چاہا اس کے برعکس قطب الدین ایبک نے پنجاب کو سلطنت دہلی کا صوبہ ہونے کی حیثیت سے اپنے قبضے میں رکھنے پر اصرار کیا دونوں میں جنگ ہوئی اول تاج الدین یلدوز نے لاہور فتح کرلیا لیکن اس کی یہ کامیابی دیرپا ثابت نہ ہوئی کیونکہ قطب الدین ایبک نے اسے جلد ہی پنجاب سے نکال دیا اور پھر بعد میں عزنی پر بھی چڑھائی کر کے تاج الدین یلدوز کو وہاں سے مار بھگایا ۔تاج الدین یلدوزکے خطرے کے پیش نظر سلطان کے لئے دلی کی بجائے لاہور رہنا زیادہ مفید تھا ۔ یلدوز کی دشمنی کے علاوہ قطب الدین ایبک کو ناصر الدین قباچہ اور علی مردان کی طرف سے بھی خطرہ تھا۔مصالحت کی غرض سے اس نے ایک طرف اگر یلدوز کی بیٹی کے ساتھ شادی کرکے اپنا رشتہ قائم کیا ۔تو دوسری طرف اس نے اپنی ایک بیٹی کی شادی ناصر الدین قباچہ سے کردی۔ اپنی پہلی بیٹی کے مرنے پر اس نے اپنی ایک اور بیٹی بھی قباچہ کو بیاہ دی۔ان تعلق داریوں کے ساتھ ساتھ علی مردان سے بھی دوستانہ تعلقات استوار کیے ۔اس حکمت عملی کا نتیجہ بہت خوشگوار نکلا ملک میں امن وامان بحال ہوگیا اور ہندوستان کا تعلق غزنی اور غورسے منقطع ہوکر یہاں ایک جدا گانا آزاد خود مختار اسلامی سلطنت قائم ہوگی۔
قطب الدین ایبک کو بطور حکمران عرصہ چار سال (1206-1210) سے زیادہ حکومت کرنے کی مہلت نصیب نہ ہوئی.1210 میں سلطان قطب الدین ایبک لاہور میں چوگان کھیل رہا تھا کے اپنے گھوڑے سے قلابازی کھا کر اس طرح گرا کے گھوڑے کے نیچے دب گیا اوراور گھوڑے کی زین کا پیش کوہ سلطان کے سینے میں جا گڑھا۔جس کی ضرب سے وہ جانبر نہ ہوسکا ۔وہ ہندوستان میں اسلامی مملکت کا پہلا تاجدار تھا ۔سلطان قطب الدین ایبک نے فتح دلی کے بعد اپنی وفات تک کل بیس سال تک ہندوستان میں حکومت کی لیکن ابتدائی سالوں میں وہ نائب سلطنت کی حیثیت سے تھا ۔آخری چار سال خودمختار اور مستقل شہنشاہ رہا اس کے بڑے بڑے کارنامے ہیں جن میں اس نے راجپوتوں اور ہندوؤں کو بار بار شکست دیں۔قطب الدین ایبک ایک صاف دل ، مخیر ،عادل اور انصاف پسند حکمران تھا ۔سلطان قطب الدین ایبک کے زمانے میں سلطنت خوشحال اور امن و امان کا دور دورہ تھا ۔
سلطان قطب الدین ایبک کو علم و ادب اور شعر و شاعری سے بھی خاص لگاؤ تھا سلطان قطب الدین ایبک نے فن تعمیر کی طرف بھی توجہ دیں۔انکی مشہور تعمیرات میں مسجد قوت الاسلام دہلی۔قطب مینار اور اڑھائی دن کا جھونپڑا حاصل طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
اتنی بڑی سلطنت پر حکومت کرنے والے سلطان قطب الدین ایبک کا مقبرہ آج ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔لاہور کے مشہور بازار انارکلی میں واقع ہونے کے باوجود بہت کم لوگ مغفرت کی دعا یاں خاصری کے لیے مقبرے پر جاتے ہیں۔یاں بہت کم لوگ سلطان قطب الدین ایبک کی خدمات سے واقف ہیں یہ ہم سب کے لیےایک لمحہ فکریہ ہے ۔ہمیں اپنے بچوں کو اپنے اسلامی ہیرو اور سلاطین ، بادشاہوں کا بتانا چاہیے اور اپنے اسلامی اور قومی ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیے۔