فیض محل، خیر پور، سندھ
یہ محل 2 منزلہ خوبصورت عمارت ہے۔ یہ عمارت فیض محمد تالپور نامی تالپور حکمران نے تعمیر کروائی تھی، جو 1894ء سے 1909ء تک خیرپور ریاست کے حکمران رہے تھے۔ اس محل کا ایک اور نام ’لکھی محل‘ بھی ہے۔ فیض محل کی تعمیر میں لال اینٹوں کے ساتھ جودھ پور کے پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
موجودہ فیض محل کی دیکھ بھال میر مہدی رضا کے ذمے ہے۔ یہ محل تالپور حکمرانی کے زمانے میں انتظامی معاملات چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آج بھی یہ عمارت آنکھوں کو موہ لیتی ہے۔ مغل طرزِ تعمیر کی یہ عمارت خیرپور ریاست کی سب سے نمایاں عمارت رہی ہے۔ خیرپور ریاست کے دفاع کے لیے فوج بھی تھی مگر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد اس ریاست کو 1955ء میں پاکستان میں شامل کیا گیا اور اس طرح خیرپور ریاست کا وجود ختم ہوا اور اس نے ایک شہر کی حیثیت حاصل کرلی۔
آپ جیسے ہی فیض محل کے احاطے میں داخل ہوتے ہیں تو ایک بڑا لان اور پھول پودے آپ کا استقبال کرتے ہیں جبکہ محل کی دائیں اور بائیں جانب توپیں نظر آتی ہیں۔ محل کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک بڑا سا ہال نظر آتا ہے جس میں اس وقت کے تمام حکمرانوں کی تصاویر، اس زمانے میں استعمال ہونے والی اشیاء، شو پیس، فانوس اور معاہدوں کی نقول دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی ہال کے برابر میں ہی ایک ڈائننگ ہال بھی ہے جو آج بھی کافی بہتر حالت میں موجود ہے۔
فیض محل سے ایک رومانوی داستان بھی جڑی ہے جس کے بغیر فیض محل کا ذکر ادھورا سا لگتا ہے۔ وہ داستان اسی خاندان کے چشم و چراغ میر علی نواز ناز اور بالی کی ہے، بالی لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک گلوکارہ تھیں۔ میر علی نواز ناز نے بالی کے عشق میں گرفتار ہوکر ان سے شادی کی مگر وہ شادی طویل عرصے چل نہ سکی۔ آج بھی بالی کے لیے تعمیر کیا گیا دلشاد محل خیرپور میں دیکھا جاسکتا ہے جو میر علی نواز ناز کی جانب سے تعمیر کروایا گیا تھا۔
آج اس دلکش عمارت میں تالپور خاندان کے نوابوں کی پہلے جیسی زندگی تو نہیں رہی ہے مگر فیض محل ہمیں آج بھی اس دور کی یاد دلاتا ہے جب یہ عمارت ایک ریاست کی شان و شوکت کی علامت تھی